غزل
جس طرح سے جس جگہ پر جس بھی ڈھب روشن کرو
میں تو بس یہ چاہتا ہوں مجھ سے سب روشن کرو
دوسروں کے طنز پر خاموش ہو جاتا ہوں میں
تم جلاؤ گے تو جل اٹھوں گا جب روشن کرو
خود پہ مرنے والوں کی تعداد تو دیکھو ذرا
میں نہیں مر سکتا مجھ کو بے سبب روشن کرو
میرے جلنے میں مرا بھی ہاتھ ہونا چاہیے
ویسے بھی مصروف ہو تم ، جانے کب روشن کرو
میں اگر دیکھوں گا تو سب دیکھنے لگ جائیں گے
جب کوئی میری طرف دیکھے تو تب روشن کرو
لوگ مرکز چھوڑ کر آتے ہیں باہر کی طرف
اپنے دل کی روشنی کے ساتھ لب روشن کرو
خود لپٹ جاتا ہوں اُس سے چھوڑتا بھی خود ہوں میں
اِس سے پہلے وہ کہے حدِ ادب روشن کرو
فیض سے بڑھ کر نہیں ہوتا کسی کو دیکھنا
خود نظر آؤ نہ آؤ لیکن اب روشن کرو
روشنی آنکھوں میں چبھتی ہے زیادہ دیر تک
میں بھی چبھنا چاہتا ہوں، ایک شب روشن کرو
مژدم خان
No comments:
Post a Comment